ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / ساحلی خبریں / بیندور کے قریب اُپندا میں بس سے گرکر طالب العلم ہلاک؛ ڈرائیور پر لاپرواہی کا الزام؛ طلبا کا سخت احتجاج

بیندور کے قریب اُپندا میں بس سے گرکر طالب العلم ہلاک؛ ڈرائیور پر لاپرواہی کا الزام؛ طلبا کا سخت احتجاج

Sat, 30 Jul 2016 03:16:35  SO Admin   S.O. News Service

بیندور29 جولائی (ایس او نیوز) سرکاری بس سے باہرگرتے ہی دوسری بس کی زدمیں آکر طالب العلم ہلاک ہونے کا اندوہناک واقعہ جمعہ کی صبح اُپندا  امباگل نیشنل ہائی وے پر پیش آیا ہے، جس پر مشتعل ہوکر کالج طلبا سڑک پر اُترتے ہوئے سخت احتجاج کیا ہے۔

اطلاع کے مطابق اُپندا کے مکین سداشیو شٹی اور بیبی شٹی کا فرزند رگھویندرا شٹی کنداپور ڈاکٹر بی بی ہیگڈے کالج میں بی کام فائنل کا طالب العلم تھا،ہمیشہ کی طرح آج صبح بھٹکل سے کنداپور جانے والی سرکاری بس پر اُپندا سے سوار ہواتھا، مگر بس سو میٹر بھی آگے نہیں بڑھی تھی کہ سامنے سڑک کنارے کھڑی ایک پرائیویٹ بس کے سائیڈ مرر(Side Mirror) سے یہ بس ٹکراگئی، آئینہ کو ٹکر لگتے ہی سرکاری بس پر سوار رگھویندر شٹی جو دروازے کے باہر ہی تھا اور اندر جانے کی کوشش کررہا تھا، پرائیویٹ بس کو ٹکراگیا اور پلک جھپکتے ہی نیچے گرپڑا۔ اسے فوری طور پر کنداپور اسپتال لے جایا گیا، مگر اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی اس نے دم توڑ دیا۔ اس تعلق سے بیندور پولس تھانہ میں معاملہ درج کیا گیا ہے۔

طالب العلم کی اچانک ہوئی موت پر طلبا مشتعل ہوگئے، بتایا گیا ہے کہ اس بس پر قریب 70 طلبا سفر کررہے تھے، جبکہ بس پر دیگر مسافر بھی سوار تھے۔ حادثے کے فوری بعد ایک طرف جائے حادثہ پر طلبا نے احتجاج کیا اور نیشنل ہائی وے کو بند کردیا  تو وہیں کنداپور اسپتال کے باہر بھی کثیر تعداد میں طلباجمع ہوتے ہوئے سخت احتجاج کیا اور اسپتال کے باہر والا راستہ بند کردیا۔ یہاں کچھ دیر کے لئے حالات کشیدہ ہوگئے اور طلبا نے انتظامیہ کو آڑے ہاتھوں لیا۔ طلبانے سرکاری بس ڈرائیور سمیت کنڈیکٹرکی لاپرواہی کو اس حادثے کے لئے ذمہ دار قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ اُپندا سے کافی طلبا سمیت دیگر مسافر بھی بس پر سوار ہوئے تھے، مگر مسافر اور طلباء بس کے اندر گھسنے بھی نہیں پائے تھے کہ کنڈیکٹر نے سیٹی بجائی اور ڈرائیور نے بس کو آگے بڑھایا، اگر تمام مسافر اور طلباء بس کے اندر چلے جانے کے بعد سیٹی بجائی ہوتی اور ڈرائیور بس کو آگے بڑھایا ہوتا تو یہ حادثہ نہیں ہوتا تھا، ان دونوں کی لاپرواہی سے رگھویندرا کی موت واقع ہوئی ہے، لہٰذا دونوں کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے۔ اس موقع پر مظاہرین نے یہ بھی بتایا کہ سرکاری بس پر سوار ہونے کے لئے پاس تو دیاجاتا ہے مگر طلباکے لئے زائد بسیں نہیں دوڑائی جاتیں، مسافر سوارہونے والے بسوں پر ہی طلباء کو بھی سفر کرنا پڑتا ہے۔ مظاہرین نے بتایا کہ کنداپور کی تین کالجوں میں جانے کے لئے ایک ہی بس پر طلباکو سفر کرنا پڑتا ہے، جس پر پہلے سے ہی مسافر سوار ہوتے ہیں۔ طلباء نے انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ صبح کالج جانے کے اوقات میں زائد بسوں کو بھٹکل سے کنداپور کے لئے دوڑایاجائے اور طلباء کوتحفظ کے ساتھ سفر کرنے کی سہولیات فراہم کی جائے۔ طلبا نے اس بات کا بھی مطالبہ کیا کہ مہلوک رگھویندرا شٹی کے اہل خانہ کو معاؤضہ دیاجائے۔

واقعے کی جانکاری ملتے ہی اُڈپی سپرنٹنڈنٹ آف پولس انّاملائی موقع پر پہنچے اور طلبا سے گفتگو کی اور بھروسہ دلایا کہ وہ اُن کے مسائل حل کرنے کی ہرممکن کوشش کریں گے۔اس موقع پر کچھ دیر کے لئے حالات سنگین رُخ بھی اختیار کرگئے تھے، جس پرپولس کو ہلکی لاٹھی کا بھی استعمال کرنا پڑا، مگر ایس پی کے تیقن دلانے کے بعد طلبا کا غصہ کچھ حد تک کم ہوگیا۔ اس موقع پر کنداپور ڈی وائی ایس پی پروین نائک، سرکل پولس انسپکٹر دیواکر پی ایم اور سب انسپکٹر ناصر حُسین نے پولس کا سخت بندوبست کیا تھا۔

واقعے کے فوری بعد کنداپور ایجوکیشن سوسائٹی کے تحت چلنے والے بی ایم ہیگڈے کالج کے طالب العلم کی موت پر گہرے دکھ کا اظہا ر کرتے ہوئے سوسائٹی کی طرف سے رگھویندرا شٹی کے والدین کو 2.5 لاکھ روپیہ کا معاؤضہ دینے کا اعلان کیا گیا، جبکہ حادثے میں طالب العلم کی موت پر جمعہ کو کالج میں چھٹی دے دی گئی۔


Share: